Wednesday, May 30, 2018

اوسلو -نفرت كے پرچارَكو، ہوش میں آؤ!



اوسلو -نفرت كے پرچارَكو، ہوش  میں آؤ!

از: ڈاكٹر ایم اجمل فاروقی ۱۵ گاندھی روڈ، دہرہ دون

اوسلو میں عیسائی دہشت گردانہ حملہ ایك بار پھر فارسی محاورہ چاہ كَنْ را چاہ درپیش (دوسروں كے لیےكنواں كھودنے والے كے آگے كنواں ہے) كو سچ ثابت كردیا ہے۔ یورپ اربن دوئم كے ذریعہ ۱۶ویں صدی میں مسلمانوں كے خلاف چھیڑے گئے متحدہ عیسائی كروسیڈ كےنتیجہ میں مستقل اسلام مخالف ذہنیت پیدا كردی گئی ہے۔ اور ۱۱/۹ كے بہانہ نفرت كی اس شراب كو مزید دو آتشہ كردیاگیاہے اور روزانہ كیاجارہا ہے۔ دنیا بھر كے مسلم دشمن طبقات، حكمرانوں اورمیڈیا كا رویہ ہر جگہ یكساں ہوتا ہے۔ ممبئی بم دھماكہ میں ابھی تك كوئی پیش رفت نہیں ہوئی؛ مگر میڈیا ٹرائیل اور فیصلہ مسلمانوں كے خلاف ہوچكا ہے،اوسلو  دہشت گردانہ حملہ كے ۱۲ گھنٹہ تك امریكہ كا یہودی اسلام دشمن میڈیا اسے اسلامی آتنگ وادی حملہ بتاتا رہا اوراس نفرت انگیزمہم میں Fox نیوز چینل اور واشنگٹن پوسٹ پیش پیش تھے۔ پورے یوروپ  میں بھی اسی طرز پر شك كی سوئی ’’اسلامی دہشت گردوں‘‘ كے خلاف گھومتی رہی؛ مگر جب اوسلو كے حكمرانوں نے دہشت گرد كےنام كا خلاصہ كریا تو یہ تھیوری پیش كی گئی كہ وہ كوئی نومسلم دہشت گرد ہوسكتا ہے جس نے اپنا نام نہ بدلا ہو۔ پھر یہ پینترا بھی كارگر نہ ہوا؛ كیونكہ دہشت گرد كا ۱۵۰۰ صفحات منشور نیٹ پر موجود تھا اور وہ خود بار بار حملہ كے لے یوروپ پر مسلمانوں كی یلغار اور كثیر تہذیبی معاشرہ كی فكر كے خلاف بیان دے رہا تھا۔ تو اب متفقہ طور پر پورے یوروپ امریكہ اور ہمارے ملك كے اسلام دشمن میڈیا اورنام نہاد سیكورٹی ماہرین نے ایك نئی لائن اپنالی ہے، جو اِس دہشت گردانہ حملہ كو دانشورانہ جواز بخش رہی ہے اور اس نئی بحث كا مركزی نقطہ ہے ’’منافقت‘‘۔
          مطلب یہ كہ وہی كام مسلمان كرے تو بنیاد پرست، انتہا پسند، جنونی اور دہشت گرد و علیحدگی پسند كہلائے، اور یہی حركت غیرمسلم كرے تو سرپھرا، گمراہ،  جنونی یامایوسی كا شكار اكّا دكّا لوگ كہلائے جائیں۔ اس طرز فكر كی غمازی پچھلے ہفتہ بھارت كےحال میں سبكدوش داخلہ سكریٹری جی. كے پلائی نے كی جب انھوں نے كہا كہ بھارت میں ہندو دہشت گردی یاعسكریت پسندی بڑا خطرہ نہیں، یہ قابو میں ہے اور یہ جتنا ہے بھی وہ بھی رد عمل پر مبنی Reactionary ہے یعنی مسلمانوں كے جواب میں ہے۔ اب پلائی صاحب سے كون پوچھ سكتا ہے كہ ۶/دسمبر ۱۹۹۲ء اور مودی كے گجرات اور ۱۹۹۳ء كے ممبئی كے ’’مسلم كش پروگرام‘‘ سے پہلے بھارت كی ۴۵ سالہ تاریخ میں مسلم دہشت گردی كی كتنی مثالیں وہ دے سكتے ہیں؟ عالمی تناظر میں دیكھیں تو دراصل یہ مسلمانوں كی مزاحمتی تحریكوں میں سبوتاژ كركے خفیہ ایجنسیوں نے اپنے اہداف كے مطابق ان كا استعمال كیا ہے، جس كی درجنوں مثالیں موساد كے سابق افسر ڈاكٹر آسٹروسكی نے اپنی كتاب ’’موساد كا فریب‘‘ میں دی ہے۔ فلسطین كے مسلمان پلائی اور پروین سوامی اور سبرامنیم سوامی كے خیال میں اسرائیل پر حملہ آور ہیں یا رد عمل كی جنگ لڑرہے ہیں۔ اگر فلسطینی غلط ہیں تو جنرل اسمبلی اب تك اسرائیلی قبضہ كے خلاف سینكڑوں قرار دادیں كیوں پاس كرچكی ہے؟ ان قراردادوں پر عمل نہ كرنے والا جنگی مجرم جیسے انسانیت كشی كے ہر حملہ میں پایا گیا، پروین سوامی اور پلائی كا قدرتی حلیف كیوں ہے؟ سوائے اس كے كہ دونوں مسلم دشمن ہیں، عراق میں مزاحمت كے خلاف یوروپ چڑھ كر كیوں آیا؟ اب جب كہ متفقہ طور پر یہ طے ہے كہ عراق پر WMD كی موجودگی بش كا سفید گھڑا ہوا جھوٹ Concoctedlic تھا تواس ظلم كے خلاف لڑنے والے آتنگ وادی كیوں ہوگئے؟ غزہ میں حماس كی جمہوری حكومت كے خلاف بجلی پانی، خوراك، دواء ہر طرح كی پابندی امریكہ یوروپ اور بھارت جیسے جمہوریت كے علمبرداروں كے باوجود جاری ہے۔ اور اس پابندی كی خلاف ورزی كركے انسانی بنیادوں پر مدد كرنے والوں پر گولیاں چلانے والے امن پسند اور جمہوریت پسند بتائے جارہے ہیں۔
          اوسلو حملہ كے ذمہ دار عیسائی دہشت گرد نے اپنے ۱۵۰۰ صفحات كے مینی نیٹو میں سے ۱۲۵ صفحات ہندوستان كی مسلم دشمن تنظیموں آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد، اكھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد كے تعارف اور تعریف میں صرف كیے ہیں۔ ان كے مسلم دشمن ایجنڈہ كو سراہا ہے اور ہندوستان كو مسلمانوں سے پاك كرنے كے مقصد كی تعریف كركے اس میں ہر ممكن ملٹری تعاون كا وعدہ كیا ہے۔ اور ان تمام مسلم دشمن تنظیموں كی ویب سائٹ كے پتہ بھی دئیے ہیں۔ بنارس میں جس شخص نے اس عیسائی دہشت گرد كے بیج كو ڈیزائن كیاہے،اس كا كہنا ہے كہ جس نے آرڈر دیا تھا وہ ٹوٹی پھوٹی ہندی اور انگریزی بول رہا تھا۔ كیا صرف یہی ربط دنیا كی كسی بھی مسلم تنظیم كو كٹہرے میںلاكھڑا كرنے كے لیے كافی نہیں تھا؟ مگر یہاں تو اس كا ذكر بھی نہیں ہے؛ بلكہ الٹا الزام مسلمانوں كے سر ہی ڈالا جارہا ہے اوراس سر میں تمام بین الاقوامی مسلم دشمن سُر ملا رہے ہیں وہ یہ كہ مسلمان جن ممالك میںگئے ہیں، وہا ںكی تہذیب كو نہیں اپناتے؟ اور وہاں كی تہذیب سود، زنا، شراب جوا كے علاوہ كیا  تہذیب ہے؟ پھر جمہوریت كس چڑیا كا نام ہے؟ اگر مجھے میرے اعتقادات كے مطابق جبكہ وہ دوسروں كو نقصان بھی نہ پہنچارہے ہوں، جینے كی آزادی ہے۔ اس آزادی پر روك كا مطلب یہ كہ آپ جمہوریت كا ڈھول بجاتے ہیں، مگر ہیں جبریت پسند یااكثریت پسند۔ مغرب میں دنیا بھر كے ممالك میں ہر ملك كے باشندہ گلوبلائزیشن كے نام پر آجارہے ہیں۔ اس كے علاوہ یہ امیگریشن ایك زمانہ میں ان استعماری طاقتوں كے سامراج كی دھن بھی ہے، مثال كے طور پر فرانس میں الجزائری مسلمانوں كی بڑی تعداد كی موجودگی یا اٹلی میں موجودگی ان ممالك كے بیرونی قبضوں كا نتیجہ ہے۔ اس وقت آپ كو یہ اجڈ، جنگلی، جاہل اچھے لگے؛ كیونكہ وہ آپ كی ترقی كی مشینوں كا ایندھن بنے ہوئے تھے، آج وہ برے ہوگئے؛ كیوں كہ آپ نے ان كی جوانی كا قیمتی خون ان كی رگوں سے نچوڑ كر اپنی مشینو میں تیل كے طور پراستعمال كرلیاہے آج وہ بیكار ہوگئے اور آپ كی تہذیب تو یہ كہ وہ سگے ماں باپ كو بوڑھا ہونے پر بوڑھے گھر (اولڈ مین ہوم) میں پھینك دیتی ہے وہ دوسروں كو كیسے برداشت كرے گی۔ ریسرچ اور اپنا سرمایہ تو بے روك ٹوك انھیں شرطوں پر غریب ملكوں میں بھیجتے ہیں اور عریب ملكوں كی پیداوار اور افرادی قوت كو اپنے یہاں نہیں آنے دینا چاہتے۔ جھگڑے كی جڑ یہی، چت بھی میری اور پٹ بھی میری والی دھونس ہے۔ اوپر سے اپنی معاشی ناكامیوں اور سودی نظام كی تباہ كاریوں كو چھپانے كے لیے ناكامی كا سارا ٹھیكرا ان ودیشیوں كے سرمنڈھ دیتے ہیں، خود ناروے كے اعداد وشمار بتاتے ہیں كہ وہاں كے آبادكاروں میں مسلمانوں سے زیادہ چینی اور دوسری قوموں كے لوگ شامل ہیں۔ مسلمانوں كے خلاف دن رات كے پروپیگنڈہ كا اثر ہے كہ اس وقت تمام یوروپ میں عیسائی انتہا پسند، آبادكار مخالف، مسلم مخالف سیاسی پارٹیاں زورپكڑ رہی ہیں۔ جرمنی، ڈنمارك، فرانس، اٹلی اور برطانیہ اس كی بڑی مثالیں ہیں۔ ان حكومتوں كو سمجھنا ہوگا كہ مسلم مخالف نفرت كی تلوار جسے وہ صدیوں سے تیز كرتے آرہے ہیں، اب شاید خود انھیں كو شكار كرے گی۔ ان حكومتوں كو اپنا مسلم مخالف ایجنڈہ ترك كرنا ہوگا۔ ورنہ یہ نہیں معلوم كہ یہ بے قابو نفرت كتنے اور اوسلو یا اس سے بھی بدتر نمونہ پیش كرے گی۔
***
ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12 ، جلد: 95 ‏، محرم الحرام 1433 ہجری مطابق دسمبر 2011ء


تحریک آزادی ہند اور تحریک آزادی فلسطین دونوں میں امتیاز کیوں؟


تحریک آزادی ہند اور تحریک آزادی فلسطیندونوں میں امتیاز کیوں؟

از: ڈاکٹر اجمل فاروقی
۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

مسلمانان ہند کی نمائندہ تنظیموں کے نمائندوں اور دیگر امن پسندوں کی جانب سے مسئلہ فلسطین اور محصورین غازہ کے مسئلہ کے لئے شروع کی گئی اجتماعی جدوجہد دیر سے اُٹھایا گیا صحیح قدم ہے جو مظلوموں کی حمایت اور قبلہٴ اول کی بازیابی کیلئے ملت اسلامیہ ہند کی طرف سے فرض کفایہ ہوسکتا ہے، مگر اس تحریک کو کافی اکیڈمک ہوم ورک کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ ہمارے ملک میں حکومت کے ہر شعبہ سے لے کر عوام خصوصاً میڈیا اور دانشور طبقہ میں اسرائیل، امریکی لابی کی زبردست پکڑ ہے۔ وہ اس طرح کی کسی بھی کوشش کو اسی طرح مطعون کرسکتی ہے جیسے حال کے لکھنوٴ پرسنل لاء بورڈ کی قرارداد فلسطین پر حکمراں جماعت کے نامزد ایم پی کا تھا جن کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی میں ملکی مفادات کو دیکھا جائے گا کسی خاص گروہ کے احساسات وجذبات کو اولیت نہیں دی جائے گی۔ مظلومین فلسطین کی مخالفت یا اس کے حق میں رائے بنانے کے دو اصول ہوسکتے ہیں: (۱) مبنی برمفاد (۲) مبنی بر اصول۔ مبنی برمفاد کا مطلب یہ ہوگا کہ اسرائیل سے دوستی رکھنے میں ملک کا زیادہ فائدہ ہے یا عربوں فلسطینیوں کا ساتھ دینے میں۔ (۲) اصولوں پر مبنی رویّہ یا پالیسی کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نفع و نقصان سے اُوپر اُٹھ کر دیکھیں کہ کون حق پر ہے اور کون ظالم ہے؟
ہمارے ملک کی اسرائیلی حامی لابی جن میں مسلم دانشوروں اور اردو میڈیا بھی شامل ہے، وہ کسی بھی فلسطینی حامی مہم کا ہندوستانی میڈیا کے تعاون سے فوراً ملک مخالف مہم اور دیش بھکتی کے خلاف قرار دے گی۔ اس لابی کی تغلیط اور تردید کے لئے ہمارے پاس بہت مضبوط دلائل ہیں جن کو یکجا کرکے عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم مفادات کی بات کریں تو سب سے بڑی بات یہ کہ خود سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پورے خلیج میں تقریباً ۳۵ لاکھ ہندوستانی کام کرکے ہندوستانی معیشت اور سماج کو مضبوط کررہے ہیں جس کے نتیجہ میں سالانہ اربوں ڈالر کی بیرونی کرنسی ملک میں آرہی ہے۔ ۳۵ لاکھ کی تعداد بھارت سرکار کے کل سرکاری ملازمین کی تعداد سے تھوڑا ہی کم ہے۔ اسرائیل میں کتنے ہندوستانیوں کو روزگار ملا ہوا ہے؟ وہاں سے کتنا ڈالر ہندوستان آتا ہے؟ اکیلے سعودی عرب میں ہندوستانیوں کی تعداد پورے امریکہ میں ہندوستانیوں سے زیادہ ہے۔ اور یہ لوگ بھی وہ ہیں جنہیں امریکہ اور یوروپ میں کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے یعنی بہت کم پڑھے لکھے اور کم ہنرمند افراد۔ اس کے برعکس اسرائیل ہندوستان سے صرف اور صرف ڈالر کمارہا ہے۔پچھلے پانچ سالوں میں بیس ارب ڈالر سے زیادہ کا ہتھیار ہندوستان کو فروخت کرکے اپنی آمدنی بڑھا رہا ہے۔ اسرائیل جو بھی ہتھیار ہمیں دے رہا ہے وہ دوسرے ممالک سے بھی خریدے جاسکتے ہیں۔ ہم آج فلسطینی عوام کو دہشت گرد کہہ کر ان کا اناج، بجلی، آمد ورفت سب کچھ بند کرنے کی کیسے حمایت کرسکتے ہیں جبکہ آج سے صرف ۶۰ سال قبل ہم خود وقت کی سب سے بڑی طاقت کے خلاف سوسالہ جنگ آزادی لڑچکے ہیں۔ ہم بھی تو مکمل خود مختاری (سوراج) سے کم کی قیمت پر نہیں تیار ہوئے تھے۔ آج ہم فلسطینیوں کی کیوں کہتے ہیں کہ وہ خیرات کی طرح ملنے والی لنگڑی لولی آزادی پر راضی ہوجائیں جس میں نہ ان کے پاس فوج ہوگی نہ سمندر اور نہ خارجہ پالیسی ہوگی۔ جس لنگڑی لولی ”ہوم رول“ پر ہم ۶۰ سال پہلے تیار نہیں تھے آج فلسطینی ویسی ہی کسی لنگڑی لولی آزادی پر کیسے تیار ہوسکتے ہیں؟
ہندوستان کی یہ برآمدات (ہرطرح کی) کا بڑا حصہ خلیجی ممالک کو جاتا ہے۔ اسرائیل ہم سے کیا خریدتا ہے؟ وہ اگر خریدنا بھی چاہے تو اس کی آبادی کتنی ہے جو وہ ہماری صنعت کے لئے مفید ثابت ہوسکتا ہے؟ پھر عربوں کے ہندوستان سے جو تاریخی رشتے ماقبل اسلام سے ہی ہیں وہ بھی اہم پہلو ہے۔ پٹرول کا معاملہ تو سب سے اہم ہے ہی۔ اس معاملہ میں ہم اسرائیل سے کتنا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ اسرائیل بھی تو مفت میں ہتھیار نہیں دیتا۔ اسی طرح عرب بھی مفت میں پٹرول کیسے دے سکتا ہے مگر وہ اس پر کوئی شرائط عائد نہیں کرتے۔ ماہرین کی رائے میں اگلے پچاس سالوں تک پٹرول کا کوئی قابل عمل متبادل نہیں ملنے والا ہے۔ پٹرول کے علاوہ دوسری ضمنی پیداوار گلسرین، گریز، تارکول اور نہ جانے کیا کیا پٹرول اشیاء کی ضمنی پیداوار ہیں یہ نیوکلیر اور گرین انرجی سے تھوڑی حاصل ہوجائے گی۔
دوسری وجہ اصولوں کی ہوسکتی ہے اور اس معاملہ میں تو اسرائیل طرز عمل کا ایک قدم بھی نہیں ٹھہرتا۔ ۱۹۶۷ء میں اس نے ناجائز طور پر پورے علاقہ پر قبضہ کیا۔اس کے قبضہ کے خلاف اقوام متحدہ کی سیکولر کونسل اور جنرل اسمبلی کی سیکورٹی ریزولیوشن دھول چاٹ رہے ہیں جبکہ عراق، افغانستان، مشرقی تیمور میں اقوام متحدہ کی صرف ایک ہی روزولیوشن وہ بھی متنازعہ کو لے کر ایک سال سے کم عرصہ میں مخالفوں کو تہہ تیغ کردیاگیا اور یہاں ظالم اسرائیل۴۷-۴۳ سالوں سے مسلسل فلسطینی عوام کو ان کے علاقہ سے بے دخل کرکے ناجائز بستیاں بسارہا ہے اور امن وانصاف کے منافق علمبردار چپ بیٹھے ہیں بلکہ الٹا بے چارہ ”دشمنوں سے گھرے چھوٹے سے ملک“ کے غم میں دبلے ہوتے رہتے ہیں۔ حماس جب ایک الیکشن کو جمہوری طریقہ سے جیت کر غزہ اور مغربی کنارہ پر حکومت کررہی تھی تو اس کو بے دخل کرنے والے امریکہ، اسرائیل اور ساری دنیا کیسے جمہوریت کے فروغ کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ ۱۵ لاکھ لوگوں کو مسلسل ضروریاتِ زندگی سے محروم رکھنا اور ساری نام نہاد منافق مہذب دنیا کو اس کو برداشت کرنا انسانیت اور تہذیب کے نام پر کلنک ہے۔ یہ آج کی پوری بین الاقوامی سیاسی قیادت کی مجرمانہ روش کا اظہار ہے۔ اس کے خلاف جدوجہد ہر انسان پر فرض ہے۔
***
شماره 8 ، جلد: 94 شعبان - رمضان 1431 ھ مطابق اگست 2010 ء

ایک غاصب ریاست کا وجود شکوک و مشکلات کے نرغے میں


ایک غاصب ریاست کا وجود

شکوک و مشکلات کے نرغے میں

                 از: محمد مونس قاسمی ، لکھیم پور کھیری

یہود نے جنگ عظیم دوم کے دوران جرمنی کے ہاتھوں ۶۰/ لاکھ یہودیوں کے قتل عام کے افسانے گھڑکر دنیا کو فریب دیتے ہوئے مظلومیت کی داستانیں سنائیں اور پھر فلسطین کا رخ کرتے ہوئے اس پر قبضہ کرلیا۔ جب کہ فلسطینی باشندوں کے ساتھ ہاگانہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں جو ظلم و ستم روا رکھا گیا، اور دیریاسین سمیت صابرا و شتیلا قتل عام کی جو حشر خیز داستانیں رقم کی گئیں انھیں طاق نسیاں کی نذر کردیا گیا۔ ایک اسرائیلی موٴرخ ایلان پاپ (ILANPAPPE) نے جو ۲۰۰۷/ تک حیفا یونیورسٹی میں پروفیسر رہے ہیں، اپنی ایک کتاب فلسطینیوں کا نسلی صفایا (The Ethnic Cleanring of Palestine) میں لکھتے ہیں: ”دسمبر ۱۹۴۷/ سے جنوری ۱۹۴۹/ تک فلسطینیوں کا مسلسل۳۱ بار قتل عام ہوا۔ یہودیوں نے فلسطینیوں کی ۴۱۸ بستیاں صفحہٴ ہستی سے مٹادیں۔
انسانی حقوق کی بدترین پامالی اور فساد وتخریب کے سائے میں کہنے کو تو اسرائیل وجود میں آگیا اور اس نے اپنے لیے تمام وسائل مجتمع کرلیے۔ عالمی طاقتیں آج اس کی پشت پر کھڑی ہیں۔ تاہم غاصب صہیونی ریاست ۶۰ سال گزرنے کے باوجود خوف وہراس کی نفسیات کی اس حد تک شکار ہے کہ سڑکوں اور گلیوں پر جگہ جگہ کلوز سرکٹ کیمرے اور میٹل ڈی ٹیکلز نصب ہیں۔ ۲۰۰۶/ سے مغربی کنارے پر القدس کے ساتھ ساتھ دیوار برلن کے نمونے پر ایک دیوار بنائی جارہی ہے۔ دیوار برلن ۱۵۵ کلومیٹر طویل تھی۔ جبکہ مغربی کنارے کی دیوار ایک ہزار کلو میٹر طویل اور ۸/میٹر اونچی ہوگی۔ اس کے ساتھ ایک دفاعی سڑک اور دفاعی ٹاورز تعمیر ہوں گے۔ اس فصیل میں ایسے الیکٹرانک دروازوں کا انتظام کیاگیا ہے جو کسی معدنی چیز کی نشاندہی کردیتے ہیں۔ امریکا میں اس کا بھی اعلان کیاگیاکہ فصیل کے اوپری حصے میں ایسے آلات نصب کیے جائیں گے اور فوجی غبارے چھوڑے جائیں گے جن میں پوری فصیل کو چیک کرنے کے لیے کیمرے لگے ہوں گے۔ اس نگرانی میں وہ ۲۰۶/ ہیلی کاپٹر جہاز بھی شامل ہیں جوامریکا،اسرائیل کو دے گا۔ اس کے نتیجے میں مسلمان ایک بڑے جیل میں بند ہوکر رہ جائیں گے۔
بعض خام خیال لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس دیوار کے قیام سے فلسطینی حدود کی تعیین ہوجائے گی؛ لیکن انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ شمعون پیریز نے اس خام خیالی کا بھی کوئی موقع نہیں چھوڑا، اس نے کہا تھا: ”کوئی فلسطینی حکومت نہیں ہوگی؛ یہ فصیل کسی حکومت کی حدود کی نمائندگی نہیں کرتی۔“ (اخبار العالم الیوم، ۲/۳/۱۹۹۹)
پھر آخر یہ کس بات کی نمائندگی کرتی ہے؟ تورات کی شرح کتاب ”قابلاہ“ میں کہا گیا ہے: قدس کی صفت ”شنحیناہ“ ہے، یعنی ایسی بادشاہت جو پورے عالم پر حکمرانی کرے گی اور اس کے ارد گرد اونچی فصیلیں ہوں گی تاکہ ظلمت کی طاقتیں وہاں نہ پہنچ سکیں، اس کی دیواریں بلند ہوں گی تاکہ دنیا میں توازن قائم ہوسکے۔
غرض کہ قدس شہر کو فصیلوں سے گھیرنے اوراسے قلعہ بند کرنے اور پھر اس کی آڑ میں بزدلانہ جنگ کرنے کا ارادہ یہودیوں کی اسی پیچیدہ نفسیاتی مزاج کی نمائندگی کرتا ہے، جس کے بارے میں قرآن میں فرمایاگیاہے: لا یقاتلونکم جمیعا الا فی قری محصنة او من وراء جدر ”وہ تم سے جنگ نہیں کریں گے مگر قلعہ بند بستیوں میں اور دیواروں اور فصیلوں کے پیچھے سے (ہزارئہ سوم کی قیامت صغریٰ)
آج ۹۰ فیصد فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے۔ وہ علاقے کی ایک بڑی ایٹمی طاقت بن چکا ہے (جیساکہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اسرائیل کے پاس ۱۵۰/ ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کا انکشاف کیا تھا) رپورٹ کے مطابق صحراء النقب میں واقع اسرائیل کا ڈیمونہ جوہری ری ایکٹر، فرانس کے تکنیکی تعاون سے ۱۹۶۳/ میں مکمل ہوا تھا۔ ان میں وہ فرانسیسی، مفرور جرمن اوریہودی سائنس داں شامل تھے جو ایٹم بم بنانے والے امریکی مین ہٹن پروجیکٹ میں کام کرچکے تھے۔ اسرائیل ہزاروں ٹن مہلک جوہری فضلہ غزہ پٹی میں کم گہرائی پر دفن کرتا رہا ہے۔ ڈیمونہ ری ایکٹر چرنوبل پلانٹ کی طرح بوسیدہ ہوچکا ہے۔ بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم کے مطابق اسرائیل کے جوہری ری ایکٹر میں دراڑیں پڑچکی ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر مصر سے اردن تک تباہی پھیلاسکتا ہے۔
اس وقت اسرائیل کی مجموعی آبادی ۷۱ لاکھ سے زائد ہے۔ اس میں یہودیوں کی تعداد ۵۴ لاکھ ہے۔ جب کہ جولان اور القدس سمیت ہر چہار طرف وہ اپنی نوآبادیات قائم کررہا ہے۔ اسرائیل کو امریکہ سے ہر سال ایک ملین ڈالر سے زائد معاشی امداد مل رہی ہے۔ اربوں ڈالر پر مشتمل امریکی یہودیوں سے ملنے والے فنڈاس کے علاوہ ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق ۲۰۰۶ میں اسرائیل کی خام قومی آمدنی ۸۹۵/ ارب ڈالر تھی۔ اسی ذریعے کے مطابق ۲۰۰۷ میں اسرائیل کی فی کس آمدنی ۷۶۷،۳۱/ ڈالر سالانہ تک بڑھ چکی تھی۔ دوسری طرف فلسطینی ہیں جن کی معیشت بدترین دور سے گذررہی ہے۔ مغربی کنارے کی نصف فلسطینی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جب کہ غزہ کی پوری ۸۰فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اسرائیل، فلسطینیوں کی نقل وحرکت روکنے کے لیے مسلسل چیک پوسٹیں قائم کررہا ہے۔ مارچ ۲۰۰۸ تک مغربی کنارے میں ۵۴۶ چیک پوسٹیں بن چکی تھیں۔ فلسطینیوں کو پانی جیسی بنیادی اور اہم چیز کا حصول مشکلات سے گھرا ہوا ہے۔ کیونکہ اسرائیل پانی کے نئے سرچشموں کے ۸۰ فیصد پر قابض ہے جو سالانہ تقریباً ۶۵۰ ملین مربع میٹر ہوتا ہے اور ۲۰ فی صد کو ہر مربع میٹر ایک ڈالر کے بدلے فلسطینی عوام کو فروخت کرتا ہے، یعنی مغربی حصہ اور غزہ کے پانی کے اسٹاک پر اس کا قبضہ ہے۔
فلسطینیوں کے خون سے سرخ اسرائیل، نہایت بے شرمی کے ساتھ اپنی ۶۰ ویں سالگرہ منارہا ہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس سال گرہ میں صدومی بھی حصہ لے رہے ہیں، کیوں کہ صدومیت، یہودی کلچر کا تاریخی حصہ ہے۔ اس سلسلے میں اگست میں عالمی فخر (World Pride) کے نام سے ہم جنس پرستوں کی پریڈ مشرقی یروشلم میں ہوگی۔ کئی یہودی راہبوں، عیسائی پادریوں اور مسلم علماء نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ وہ علانیہ گناہ کا مظاہرہ کرکے خدا کے غضب کو نہ بھڑکائیں۔
اسرائیل، جو ایک ناجائز وجود ہے، اس کا حکمراں طبقہ باوجود مال ودولت کی ریل پیل کے مالی واخلاقی بدعنوانی میں ملوث ہے۔ اسرائیلی صدر موشے کتساف پر صدارتی دفتر کی خواتین سے زیادتی کا، موجودہ وزیراعظم اولمرٹ پر مالی بدعنوانی اوربدعنوان کابینہ بنانے کا اورنائب وزیر اعظم لیبرمین پر خواتین کو چھیڑنے کا الزام ہے۔ پولیس ان کیسوں کی تحقیقات میں مصروف ہے۔ نومبر ۲۰۰۷ میں ۲۰ سے زائد مقامات پر چھاپے مارکر سرکاری ریکارڈ قبضے میں لیے گئے، ان میں وزارت صحت وتجارت شامل تھی۔
غاصب صہیونی ریاست اپنی ساٹھویں سال گرہ بڑی دھوم دھام سے منارہی ہے۔ جب کہ خود اسرائیل کی رائے عامہ اور ممتاز طبقے میں اسرائیل کی بقاء کے امکان کے بارے میں شکوک و شبہات کا شدید احساس پیدا ہوگیا ہے۔ اس کا اندازہ صہیونی وزیراعظم یہود اولمرٹ کا حالیہ بیان، جس میں انھوں نے کہا ہے: ”اگر وہ دن آتا ہے جب دوریاستی حل ناکام ہوجاتا ہے اور ہمیں ووٹنگ کے مساوی حقوق کے لیے جنوبی افریقہ کے طرز کی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو اسرائیلی ریاست ختم ہوجائے گی۔“ (دعوت، ۲۵/مئی ۲۰۰۸) نیز متعدد اسرائیلی ریٹائرڈ جنرلوں کے دستخط شدہ میمورنڈم بھی اس کی غمازی کرتا ہے جو انھوں نے حکومت کے ارباب نظم ونسق کو اس بات سے ہوشیار کرنے کے لیے بھیجے ہیں کہ اگر عربوں کے ساتھ تنازعہ کے فائنل تصفیے کے قطعی معاہدات مکمل نہیں ہوئے تو اسرائیل کو صرف زوال وخاتمے کا انتظار کرنا چاہیے۔
دوسرے یہ کہ ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی اسرائیل، صہیونی تحریک کے مرکزی نشانے کو حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ یعنی دنیا کے یہودیوں کو امن وامان کی پناہ گاہ اسرائیل کی طرف ہجرت کی اہمیت سے مطمئن کرنا، اس کے برعکس اب تو یہ ہورہا ہے کہ اسرائیل کی طرف ہجرت کرنے والوں کے مقابلے میں ان لوگوں کا تناسب بڑھ گیا ہے جو اسرائیل چھوڑ کر دوسرے ممالک واپس جارہے ہیں۔ یعنی فوجی طاقت اور اقتصادی استحکام بھی دنیا کے یہودیوں کو اسرائیل کی طرف ہجرت کرنے اور جو وہاں پہنچ چکے ہیں ان کو وہاں مستقل بود و باش اختیار کرنے پر مطمئن نہ کرسکا۔ رپورٹیں تو یہاں تک ہیں کہ ۷ لاکھ یہودی اسرائیل چھوڑ کر جاچکے ہیں اور واپس آنا نہیں چاہتے۔ ساتھ ہی یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ اگرچہ اسرائیل کے یہودیوں میں ”دین“ ایک اہم مشترک صفت ہے، لیکن ان کے باہم برسرپیکار دینی رجحانات میں شدید ترین آویزش ہے۔ حتی کہ لسانی وحدت بھی مفقود ہے۔ عبرانی زبان تنہا سب پر راج کرنے کی حیثیت سے ناکام رہی۔ وہاں پورے کے پورے ایسے رہائشی گروہ ہیں جو عبرانی زبان نہیں بولتے، جیسے کہ روسی مہاجر جن کا شمار سب سے بڑے نسلی مجموعے میں ہوتا ہے۔ وہ صرف روسی زبان ہی بولتے ہیں۔ ان کا اپنا الگ تعلیمی نظام ہے اور ان کے اخبارات ووسائل ابلاغ روسی زبان ہی استعمال کرتے ہیں۔
اسرائیل کے مختلف گروہوں میں نسلی امتیازات موجود ہیں۔ اور سرکاری نظام اسی بنیاد پر ان کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ چنانچہ ”فلاشا“ یہودی جن کو ایتھوپیا سے لایاگیا تھا، ان کو اسرائیلی معاشرے میں قبول نہ کرنے کی وجہ سے ایسی مشکلات کا سامنا ہے کہ وہ خودکشی پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں اسرائیل ہی وہ تنہا مملکت ہے جس کو اپنے ”وجود کے جواز“ کے بحران کا سامنا ہے، اس لیے کہ وہ دوسری قوم کی غصب شدہ زمین پر قائم ہوئی ہے۔ چنانچہ یہ یقینی ہے کہ وجود کے جواز کے مشاکل صہیونی منصوبے کا تصفیہ کرکے چھوڑیں گے۔ (بحوالہ ہفت روزہ الامان بیروت، ۱۱/اپریل ۲۰۰۸)
***
________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 10-11 ، جلد : 92 ذيقعده 1429 ھ مطابق اكتوبر - نومبر 2008ء

فلسطینی طلباء کو ذرائع تعلیم سے محروم کرنے کی اسرائیلی سازش


فلسطینی طلباء کو ذرائع تعلیم سے محروم کرنے کی اسرائیلی سازش

از: مولانا سہیل اختر قاسمی
                غزہ فلسطین کا وہ بدنصیب حصہ ہے جہا ں کی ہر خشت پر اسرا ئیلی بربریت کی خونی لکیریں نظر آتی ہیں در حقیقت اسرا ئیلی درندوں نے فلسطین کو تہہ وبا لا کرنے میں کسی بھی طرح کی کو ئی فروگزا شت نہیں چھوڑی ،قتل ،اغوا ء،نسل کشی ،معاشی واقتصا دی بندش،فلسطینی عورتوں کی عصمت دری ،تشویہہ اطفا ل اور ہر طرح کے در دنا ک مظا لم انکے زیر تجربہ رہے ہیں ،انسا نیت کی ہر حد اور قانون کی ہر شق پر نا بودی کا ہتھوڑا پھیرنا ہمیشہ سے اسرا ئیل کا خصوصی شیوہ رہا ہے تعجب یہ ہے کہ مظالم کے اس بحر بیکرا ں کے با وجود انکی پیا س ظلم اب تک نہیں بجھی ،معا شی ،سیا سی ،تہذیبی،اقامتی اور انسا نی سہو لیا ت ،ضروریا ت اور ا حتیا جا ت جبرا َچھین لینے کے با وجود اسرا ئیلی درندو ں میں عداوت کا لا وہ اب تک پھوٹ رہا ہے ،یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ فلسطینیو ں کو پوری طرح پتھروں کے شہر میں بھیج دینا چاہتے ہیں،المیہ یہ ہے کہ آتش و خو ن ،با رود اور گولیوں کی جنگ کے بعد اسرائیلیوں نے ایک نئے محا ذ کی یا فت کی ہے اس محا ذ میں فلسطین کی وہ تعلیمی نسل نشانہٴ تخریب ہے جس پر پوری قوم کی قسمت معلق ہے ،ضروری ذرائع تعلیم، قلم ،کاپی ، پینسل اور اس طر ح کی ہلکی پھلکی ضروریا ت پر پابندی اور تعلیمی میدا ن میں فلسطینیوں کو نا خوا ندہ رکھنے کی ہر کوشش اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، در اصل پہلے فلسطین کی فضا ء میں گولیوں کا بہتر ین نشا نہ فلسطینی عوام کی جسموں سے نکلنے والے بارود کی بو ہو تی تھی اب وہ طلبہ وطا لبا ت کی اندرونی شخصیتوں کی چرمراہٹ سننے کی عادی ہو گئی ہے کیو نکہ جو لڑائی گلیو ں کی تھی وہ آ ج ا پنا دائر ہ پھیلا چکی ہے افسوس اب تعلیم کی شمع بجھا کر فلسطینیو ں کو قسطو ں کی تا ریکی دکھا ئی جا رہی ہے تا کہ تعلیم کی روشنی میں فلسطینیو ں کو پھر سے کہیں زندہ ہو نے کا موقع نہ مل جا ئے۔

یہ سچ ہے کہ فلسطینیو ں کو حصا ر میں رہنے کی عا دت ہے ، سنگینیو ں کے سا ئے میں سونا ان کا معمول ہے ،ہر صبح لاشو ں کو کا ندھا دینا ا نکی ذمہ دا ری ہے ،پا نی ،بجلی ،اشیا ء ما کو لا ت ،طبی سہو لیا ت اور تعمیرا ت ہر طر ح کی بندش کے با وجود ا نہو ں نے اپنے عز م کو قا ئم رکھا ،اپنا حوصلہ تھامے رکھا، اسرائیلیو ں کو ا نکا صبر زہر لگا انہو ں نے مز ید ظلم کر نے کی ٹھا ن لی اور ا س طر ح انسا نی حقوق کی پا ما لی کرتے ہوئے غز ہ میں اسکو لی سا ما نو ں کی درآ مد پر روک لگا دی ۔
                فلسطینی اقتصا دو معیشت کے وزیر حاتم عو یضہ نے ا پنے ایک ا نٹر ویو میں کہا کہ غا صب اسرائیل فلسطین میں اسکو لی آ لا ت کی در آ مد ی پر شدت سے رو ک لگا رہی ہے تا آ نکہ انسا نی حقوق کی محا فظ تنظیمو ں کے مطا لبا ت کو بھی ٹھکرا دیا ہے حا لا نکہ ا ن دنو ں غز ہ میں اسکو لی لوا ز ما ت کی بے پنا ہ ضرورت ہے،مزیدا ر بات یہ ہی کہ ان سنگین حا لا ت کی ا طلا ع ا ن تما م مما لک کو ہے جو حقوق انسانی اور تعلیمی بیدا ری کا پروپیگنڈہ کر تے ہیں مگر اس معا ملے میں انکی حسا س اور خود سا ختہ لب گویائی پر خوف و مصلحت کا تا لا پڑا ہوا ہے۔

ابو امجد نا م کا ایک فلسطینی شہر ی جو کہ غزہ میں رہا ئش پذیر ہے اور انکے پا نچ بچے ہیں انکا کہنا ہے کہ” میر ے سا رے بچے سر کا ری ا سکو لو ں میں پڑھتے ہیں المیہ یہ ہے کہ تعلیمی سا ل شر وع ہو چکا ہے اور وہ اسکو ل کے ضروری اشیا ء اور لوا زما ت نہیں خرید پائے ہیں“،علاوہ ازیں فلسطینی عورت ام المجدبھی اسی طر ح کا ا لم ظا ہر کر تے ہوئے کہتی ہیں کہ” میں غزہ کے تما م با زا رو ں میں گھوم چکی ہوں مگر مجھے نہ کا پیا ں ملی اور نہ قلم وغیر ہ دستیا ب ہو ئے اور جہا ں یہ سب چیزیں مل رہی ہیں وہا ں آسما ن چھوتی قیمت نے میر ے ہا تھو ں کو روک دیا“یہ کہتے ہوئے وہ رو پڑی کہ”جب سے میرے شوہر اسرا ئیلی بربر یت میں شہید ہو ئے ہیں تب سے میں تنہا اپنے بچو ں کی کفا لت اور پرورش کررہی ہوں“اس نے فلسطینی وزا رت تعلیم وتربیت کے سا منے یہ مطا لبہ رکھا ہے کہ وہ اس معاملے میں پائے جا نے وا لے بحرا ن کی مزا حمت کریں اور اسرائیل کی جنگی ،انسا نی اور تعلیمی جرا ئم پر قدغن لگا نے کی تحریک شروع کریں۔
                واضح ہو کہ غزہ میں اس تعلیمی ظلم کے خلا ف 9ستمبر 2009کو فلسطینی طلباء و طا لبا ت نے زبردست احتجا ج کیا تھا ،وہ لوگ ا پنے ہا تھو ں میں احتجا جی بینر تھا مے ہو ئے تھے جس پر متعدد احتجاجی جملے رقم تھے مثلا ”ہما ری کتا ب اور ہما ری کا پیا ں کہا ں ہیں“”ہم نونہا لا ن پر لگا ئی گئی تعلیمی بندش کو ختم کرو“”ہم پڑھنا چاہتے ہیں“”ہم اپنا تعلیمی حق ما نتے ہیں“اس احتجا جی جلسے کے بعد کم عمر طلباء نے اقوام متحدہ کے مقا می مرکز کو اسرائیل کی ظا لما نہ بندش پر اپنا احتجا جی پیغا م پیش کیا جسکے مخا طب اقوام متحدہ کے صدر با ن کی مون تھے ،اس ا حتجا جی وفد کا مطا لبہ یہ تھا کہ موصوف محتر م اور عالمی برا دری اسرائیل کی تعلیمی خلا ف ورز یوں پر رو ک لگا ئیں ۔
                نو سا لہ اکر م احمد پور ی معصو میت کے سا تھ یہ کہتا ہے کہ ”یہو دیو ں نے میر ے وا لدین کو مارڈا لا اور ہما ری رہا ئش گا ہو ں کو زمین بو س کرڈا لا ،میری کا پیا ں اور میر ی کتا بیں اس ظا لما نہ کاروائی کی نذر ہو گئیں ،مجھے کتا ب ، قلم اور کا پی کی ضرورت ہے ،میں پڑھنا چاہتا ہوں“۔

مشہو ر عربی مجلہ’ فلسطین مسلمہ‘کے اعدادو شما ر جو ا نہو ں نے فلسطینی وزا رت تعلیم و تر بیت سے حا صل کیا ہے؛کے مطا بق اس سال 240 طلبا ء او ر 15اسا تذہ اسرا ئیلی دہشت گردی کی نذر ہوئے او ر تقریبا 942طلبا ء اور ا سا تذہ زخمی ہوئے جن میں سے ا کثر پور ی طرح اپا ہج ہو چکے ہیں، اس رپورٹ میں یہ بھی درج ہے غزہ میں تقریبا 7اسکو ل پور ی طر ح تبا ہ اور بے شما ر تعلیم گا ہو ں کو جزوی طور پر نقصا ن پہنچایا گیا ہے ،علا وہ ا زیں اب تک پورے فلسطین میں مجموعی طور پر 4828ایسے مکا نو ں کو پوری طر ح منہد م کر دیا گیا ہے جس میں ا سکو لی طلبا ء مقیم تھے اور اسی طر ح کے 9738مکا نوں کو جز وی نقصا ن پہنچا یا جا چکا ہے،وزا رت تعلیم وتر بیت کے تر جما ن خا لد را ضی نے فلسطین مسلمہ کو دئے گئے اپنے ا نٹر ویو میں کہا کہ” حا لیہ جنگ نے تعلیمی میدا نو ں کو سخت نقصا ن پہنچا یا ہے خصوصا تعلیم گاہو ں ،ہاسٹلز ،کلا سوں اور لا ئبریریوں کو پور ی طر ح نشا نہ بنا یا گیا ہے“۔
                اسرا ئیل جس طرح مدارس اور تعلیم گا ہو ں کو بر با د کر ہا ہے اس سے یہی اشا رہ ملتا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ہر حق کو پا ما ل کرنا چا ہتا ہے ، لا ئبریریو ں،درسگا ہو ں اور اقامت گاہو ں کو تبا ہ کر نے کے سا تھ سا تھ اسکو لی ا شیا ء پر مکمل بندش لگا کر یقینا اسرا ئیل نے شیطنت کا عظیم مظاہرہ کیا ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ ان تما م مظا لم پر دنیا کب تلک خا موش رہے گی؟
مأخوذ  : ماهنامه دارالعلوم ، شماره 4 ، جلد: 94 ، ربيع الثانى – جمادى الاول 1431 هـ مطابق اپریل 2010 ء


Friday, May 25, 2018

سفارت خانہ کی منتقلی اور فلسطینیوں کا قتل عام


سفارت خانہ کی منتقلی اور فلسطینیوں کا قتل عام


خورشید عالم داؤد قاسمی ٭
جی ہاں، یہاں خفیہ طور پر کچھ بھی نہیں ہورہا۔ سب کچھ دن کے اجالے میں ہورہا ہے۔ غاصب مملکت اسرائیل کے شہر تل ابیب میں واقع، امریکی سفارت خانہ  14/مئی کو مقبوضہ بیت المقدس میں منتقل کردیا گیا۔ اسی یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس) میں جس کے اصل حقدار فلسطینی مسلمان ہیں۔ اس عمل سے امریکہ یہ واضح کردینا چاہتا ہے اسرائیل نے جس یروشلم (بیت المقدس) کو ظلم وجبر کے ساتھ 1967ء میں قبضہ کرکے اپنا دار الحکومت بنانا چاہتا ہے، اس میں امریکہ کی مرضی بھی شامل ہے۔ پچھلے ہفتے 12/مئی 2018ء کو امریکی صدرنے ٹویٹ کیا تھا: (Big week next week when the American Embassy in Israel will be moved to Jerusalem. Congratulations to all!) “یعنی آئندہ ہفتہ عظیم ہفتہ ہوگا، جس وقت اسرائیل (تل ابیب) میں واقع امریکی سفارت خانہ، بیت المقدس منتقل کیا جائے گا۔ سب لوگوں کو مبارک ہو!” 14/مئی 2018ء  کو صبح صبح اسی امریکی صدر نے ٹویٹ کیا (A great day for Israel!) یعنی اسرائیل (کی تاریخ) کا ایک عظیم دن۔تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ مگر ہاں، شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے کہ ایک امریکی صدر کی چودھراہٹ کے سامنے درجنوں مسلم ممالک  کے زعماء وقائدین گیدر بن کر بِل میں گھسے  ہوئے ہیں؛ جب کہ ان کے پاس کافی وقت تھا کہ وہ ہمت کا مظاہرہ کرتے، عالمی برادری سے مل کر باتیں کرتے، اس امریکی فیصلے کے خلاف ماحول تیار کرتے اور امریکہ کے ظالمانہ فیصلے پر روک لگانے کی کوشش کرتے ۔ مگر انھوں نے ایساکچھ بھی نہیں؛ اس لیے انھیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے؛ لیکن سوال یہ بھی تو ہے کہ کیا ان اندر شرم وحیا نام کی کوئی چیز بھی ہے؟!
امریکی صدر نے گزشتہ سال یعنی 6/دسمبر 20017 کو ہی “بیت المقدس” کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد،کچھ مسلم ممالک کے حکمرانوں نے ٹرمپ کے اس ظالمانہ رویے کے خلاف آواز اٹھاکر، خواب غفلت سے بیداری کا ثبوت پیش کیا تھا؛ تو لوگوں کو امید بندھی تھی کہ اب پانی سر سے اونچا ہورہا؛ اس لیے مسلم ممالک لیڈران کم از کم اب بیدار ہوگئے ہیں۔ اب فلسطین کی آزادی، بیت المقدس کی بازیابی اور مسجد اقصی کی حفاظت کے حوالے سے کچھ مثبت فیصلے لیے جائیں؛ مگر چند دنوں کے بعد ہی سب کے سب پہلے ہی کی طرح خاموش ہوگئے۔ ترکی کے مرد آہن، رجب طیب اردگان استنبول سے لندن تک تک کچھ نہ کچھ بول رہے ہیں؛ مگر شخص واحدکربھی کیا سکتا ہے۔مسٹر ٹرمپ کے بدبختانہ اعلان کے بعد، عرب لیگ  کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی ہنگامی میٹنگ، مصر کی راجدھانی قاہرہ میں منعقد ہوئی تھی۔ اس میٹنگ میں ممبران نے واضح لفظوں میں امریکی صدر کےفیصلے کی مذمت کی تھی اورعالمی برادری سے یہ مطالبہ بھی کیا گيا ہے کہ وہ فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کریں۔ مگر اس کے عملی طورپر کوئی قدم نہیں بڑھایا؛ بل کہ ماضی کی طرح سب خاموش بیٹھ گئے۔
آخر کار 14/مئی کا دن آیا اور تل ابیب میں واقع امریکی سفارت خانہ کو بیت المقدس  منتقل کرنے کا عمل شروع ہوگیا۔14/مئی کی شام  کو چار بجےبیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ کی منتقلی کی مناسبت سے ایک افتتاحی تقریب منعقد کی گئی۔ غاصب اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامین نتین یاہو نے اس افتتاحی پروگرام میں شرکت کرکے امریکی صدر کے فیصلے کو سراہا۔نیتن یاہو نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ ہماری راجدھانی ـــبیتالمقدســـ  میں، ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سفارت خانہ کا افتتاح ہورہا ہے!  نیتن یاہو نے امریکی صدر ٹرمپ کا  ٹویٹر پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ “(آج کا دن) کیا ہی ایک حیرت انگیز دن ہے!” امریکہ کے اعلی سطحی وفد کی موجودگی میں سفارت خانہ کا افتتاح ہوا۔ اس تقریب میں اسٹیٹ ڈپٹی سکریٹری جون سلیوان، امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منوچن،ٹرمپ کے داماد اور مشیر اعلی جیرڈ کشنر، ٹرمپ کی بیٹیایوانکا ٹرمپ اوربین الاقوامی مذاکرات کے خصوصی نمائندہ جاسون گرینبلیٹ نےبھی شرکت کی۔ امریکی صدر ٹرمپ گرچہ اس پروگرام میں موجود نہیں تھے؛ لیکن ٹیلی کانفرنس کے ذریعے اپنے بیان سے مسلم ممالک کے حساس عوام کے دلوں کومجروح کرتے ہوئے اپنے منافقانہخطاب میں کہاکہ “آج ہم نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ اس بات کا اظہار ہے کہ ہم اسرائیلی عوام کے ساتھ ہیں۔”ٹرمپ نے اپنے اسی بیانمیں متضاد باتیں کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ “امریکہ نے پائیدار امن سمجھوتے کی تشکیل کےلیے خود کو وقف کر رکھا ہے۔”
مڈل ایسٹ آئی (Middle East Eye) کی ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا، جس کو پڑھ کر کسی بھی انسانیت نواز شخص کا سر شرم سے جھک جائے گا اور وہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ کیا ایسے انسان بھی اس دنیا میں بستے ہیں؟ رپورٹ میں ہے کہ امریکی سفارت خانہ کی منتقلی کے وقت جہاں بیت المقدس میں آباد مسلمان پرامن احتجاج کررہے، وہیں صہیونیت نواز لوگ اپنے جشن کےاظہار  میں فلسطینیوں کے خلاف یہ نعرے لگاکر کررہے تھے کہ”ان کو جلادو، ان گولیوں سے بھون دو، ان کو قتل کردو! (Burn them, shoot them, kill them) جس ریاست کے حکمرانوں کا دامن فلسطینیوں کے خون سے رنگین ہو اور اس کے شہری ایسی زبان بولتے ہوں، کیا ان سے بھی پائیدار امن سمجھوتے کی توقع رکھی جاسکتی ہے؛ جب کہ امریکہ پائیدار امن سمجھوتے کے لیے خود وقف کررہا ہے؟
امریکہ سپر پاور  ہونے کے جھوٹے زعم وغرور میں، ہر جگہ ثالثی کا رول نبھانے کا خواہاں رہتا ہے۔ چناں چہ مشرق وسطی میں بھی فلسطین اورغاصب ریاست  اسرائیل کے حوالے سے وہ خود کو ہمیشہ ثالثی بتاتا آیا ہے۔ اب کچھ انصاف پسند کچھ لوگ اس بات سے پریشان  اور تعجب میں ہیں کہ جو خود کو ثالثی باور کرانے کوشش کرتا  رہا ہو،وہ کیسے ایسا غیر دانش مندانہ قدم اٹھا رہا ہے جو بدیہی طور جانب دارای کی عکاسی کررہا ہے؛  کیوں کہ اس اشتعال انگیز فیصلے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ غیر جانبدار نہیں ہے؛ بل کہ دہشت گرد مملکت اسرائیل کا حلیف ومعین ہے جو فلسطین کا وجود ختم کرنے کی کوشش میں ہے۔
آج جس اقوام متحدہ کی قرار داد کے طفیل غاصب ریاست اسرائیل کا وجود نظر آرہا ہے، اسی اقوام متحدہ کے قرارداد نے فلسطین کی تقسیم کے وقت “یروشلم-بیت المقدس” کو “بین الاقوامی شہر” قرار دیا تھا، مگر اس پر غاصب اسرائیل اور اس کے ظالم حلیف نے کبھی توجہہ نے دی؛ تا آں کہ 1967 کی جنگ میں پورے بیت المقدس کو قبضہ کرلیا۔  یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قرار داد کے خلاف قدم اٹھایا تھا؛ بل کہ حقیقت یہ ہے فلسطین کے حق میں، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے جب بھی کوئی قرار دار منظور کی گئی ہے، امریکہ اسے ویٹو کرنے یا پھر غاصب اسرائیل  کی اس قرارادادکے خلاف عملی اقدام کرنے میں پشت پناہی کرتا رہا ہے۔ جب دسمبر 2017 ء میں ٹرمپ نے ظالمانہ انداز میں بیت المقدس کو غاصب اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرکے، امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے “بیت المقدس” منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا، اس وقت بھی ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد پاس کرکے امریکہ کے فیصلے کو مسترد کیا تھا۔ اس کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی واضح مخالفت کرتے ہوئے، امریکی سفارت خانہ کو بیت المقدس منتقل کرکے، اقوام عالم کو ایک بار پھر باور کرادیا کہ اسرائیلی مفاد کے خلاف اقوام متحدہ کے کسی قرارداد کی، اس کے سامنے کوئی وقعت واہمیت نہیں ہے۔
بہرکیف، صہیونی اسرائیلیوں نے اس امریکی فیصلے پر جشن منایا اور خوشی ومسرت کے ماحول میں، امریکی سفارت خانہ کی  تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی ہوگئی۔ مسلم ممالک کے حکمراں خاموش تماشائی بنے رہے۔ شاید وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان حکمرانوں کے ممالک محفوظ، ان کی حکومتیں محفوظ ہیں،ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے،  ان کے بیٹے بیٹیوں اور جگر کے ٹکڑوں کا قتل نہیں ہورہا ہے، ان کی بیٹیوں اور بیویوں کی عزت محفوظ ہے، ان کے آسمان چھوتے محلات پر کوئی قابض نہیں ہے، ان کی عیش وآرام کی زندگی میں کوئی مزاحم نہیں ہے،  ان کےتعلیمی ادارے اور ہسپتالوں پر بمباری نہیں ہورہی ہے، ان کے ہرے بھرے باغات جلائے نہیں جارہے ہیں، پھر ان کو کیا ضرورت ہے کہ وہ  اسرائیل و امریکہ کے خلاف آواز اٹھائیں؛ جب کہ اسرائیل اپنی وحشیانہ طاقت کا استعمال کررہا ہے، ظلم وجور اور کھلی دہشت گردی کا ارتکاب کررہا ہے اور امریکہ  اس کی واضح طور پر حمایت  میں لگا ہے۔
مسلم ممالک کے خاموش  اور بے غیرت حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو اسرائیل آج فلسطینیوں  کی آزادی چھین رہا ہے، فلسطینیوں  کی زمینیں قبضہ کررہا ہے،مسلمانوں کے قبلہ اول کو مسمار ومنہدم کرنے کی مذموم سعی کررہا ہے، فلسطینیوں کے مدارس واسکولس اور ہسپتالوں تک پر بمباری کرنے میں دریغ نہیں کرتا، فلسطینیوں کے ہرے بھرے باغات کو نذر آتش کرتا ہے، ہزاروں فلسطینیوں کو قید کیے ہوا ہے، ان کے معصوموں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی تمیز کے گولیوں سے بھون رہا ہے، فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے، فلسطینیوں کی نسل کشی  کا مجرم ہے، وہ اسرائیل جب فلسطینیوں سے فارغ ہوگا؛ تو پھر وہ ان گیدروں، بزدلوں، منافقوں اور عیاشوں پر حملہ کرے گا جو آج خاموش تماشائی ہیں۔ دانشمندی اسی میں ہے ابھی بھی مسلم ممالک کے قائدین اتحاد واتفاق کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر آکر، کھلے طور پر فلسطینیوں کی حمایت کریں،بیت المقدسومسجد اقصی کی بازیابی اور فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد ریاست سے کم پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ اگر ایسا نہیں ہے؛ تو یاد رکھیں کہ “آج ہماری، کل تمھاری باری ہے”۔  مسلم ممالک کے لیڈران نوٹ کرلیں کہ امریکہ کا اسرائیل کو مادی ومعنوی قوت فراہم کرنے کا سیدھا مقصد، مشرق وسطی کو کنٹرول اور قبضے میں رکھنےکی مضبوط تیاری ہے، جس میں امریکہ کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے۔
گزشتہ کی  طرح اس بار فلسطینی سرفروشان  اسلام، انبیاء کی سرزمین: فسلطین اور مسلمانوں کے قبلہ اول کی حفاظت کے لیے 14/مئی کی صبح سے، امریکی سفارت خانہ کی منتقلی کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔قابض اسرائیلی فوج کی بندوقوں سے گولیاںبارش کی طرح ان پر امن مظاہرین پر برس رہی ہیں۔ اسرائیلی فوج اپنی طاقت کے نشے میں اس طرح مست ہے کہ بغیر کسی تمیز جس پر وہ چاہتی ہے فائرنگ کرتی ہے؛ چناں چہ ان کی گولیوں سے نہ صرف پرامن مظاہرین  کے ساتھ معصوم بچے اور لائق رحم بوڑھے قتل ہورہے ہیں؛ بل کہ صحافی اور ڈاکٹر  کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پر رہا ہے۔ اب تک کئیمظاہرین اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ایک رپورٹ  کے مطابق، غزہ کے سرحدی علاقے میں، غاصب اسرائیل کی فوجیوں کی فائرنگ سے، جام شہادت نوش کرنے والوں کی تعداد”ساٹھ” تک پہنچ چکی ہے؛ جب کہ زخمیوں کی تعدادتین ہزار سے زاید ہے۔حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ہمیں یقین ہے کہ ان شہیدوں کا خون ضرور نگ لائے گا۔ مگر یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ فلسطین کی آزادی، بیت المقدس کی بازیابی  اور مسجد اقصی کی حفاظت کے لیے کتنے شہیدوں کا خون درکار ہے اور ان شہیدوں کا خون کب رنگ لائے گا؟
٭ ہیڈ: اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ 
 بصیرت فیچرس)

Saturday, May 19, 2018

مسجد اقصیٰ تعارف اور مختصر تاریخ

مسجد اقصیٰ-تعارف اور مختصر تاریخ


مسجد اقصیٰ کا محل وقوع


مسجد اقصیٰ شام کے علاقے (یعنی موجودہ فلسطین) میں واقع ہے اور اس کو القدس بھی کہا جاتاہے، القدس یروشلم کا عربی نام ہے۔ اسلام سے قبل اس کا نام ایک رومی بادشاہ ہیرڈوس نے ایلیا رکھا تھا اور یہ بحر روم سے ۵۲ کلو میٹر ، بحر احمر سے ۲۵۰ کلو میٹر اور بحر مردار سے ۲۲ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ بحر روم سے اس کی اونچائی ۷۵۰ میٹر اور بحر مردار کی سطح سے اس کی بلندی ۱۱۵۰ میٹر ہے۔ سب سے پہلے یہاں یبوسین آکر آباد ہوئے، ایک روایت ہے کہ اس شہر کو ”سام بن نوح“ نے آکر آباد کیا۔ سب سے پہلے ۱۰۱۳ قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کو فتح کیا۔  (خطط الشام ج:۵،ص:۲۵۲، القدس دراسةً وتاریخیةً(


مسجد اقصیٰ کی تاریخی حیثیت

ایک روایت ہے کہ زمین پر پہلی مسجد، مسجد ِاقصیٰ ہے، لیکن محدثین اور اکثر مفسرین کے نزدیک پہلی مسجد، مسجد بیت الحرام ہے، جس کو فرشتوں نے تعمیر کیا ہے: جیساکہ بخاری شریف میں حضرت ابوذرسے روایت ہے، جس میں یہ صراحت ہے کہ مسجد بیت الحرام کی تعمیر اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر میں چالیس سال کا عرصہ ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مسجد بیت الحرام کو ابن آدم کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا۔ امام قرطبیفرماتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت الحرام کے اور حضرت سلیمان علیہ السلام مسجد اقصیٰ کے مجدد ہیں، نہ کہ مؤسس۔ اور مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے، جس میں معراجِ نبوی کا تذکرہ ہے۔ (الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل ص:۸-۱۰(

مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ادوار اس بارے میں مختلف روایات ہیں کہ مسجد اقصیٰ کا مؤسّسِ اول کون ہے:پہلا قول یہ ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے تعمیرکی۔ تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت سام بن نوحسب سے پہلے تعمیر کرنے والے ہیں اور چوتھا قول یہ ہے کہ حضرت داؤد وسلیمان علیہما السلام پہلے تعمیر کرنے والے ہیں۔
علامہ احمد بن عبد الواحد المقدسی فرماتے ہیں کہ ان سب روایتوں میں اس طرح تطبیق ہوسکتی ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے ، پھر حضرت آدم علیہ السلام نے، پھر حضرت سام بن نوحنے اور پھر حضرت داؤد وسلیمان علیہما السلام نے بالترتیب تعمیر کیا ہو۔(حوالہ سابقہ(


مسجد اقصیٰ پر آنے والے حوادثات

مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے بعد اس پر مختلف قسم کے حوادثات آئے، جس کی وجہ سے دوبارہ اس کی تجدید اور تأسیس کی ضرورت پڑتی رہی،لیکن تاریخ کی کتابوں میں چھ حوادثات کا ذکر ہے، جن میں باہر سے القدس پر حملہ ہوا، مسجد کو دو مرتبہ نقصان پہنچا۔ ان دو واقعوں کا ذکر قرآن پاک کی سورہٴ اسراء کے شروع میں ہے۔
پہلا واقعہ جس میں مسجد کی تعمیر کو نقصان پہنچا، وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے ۴۱۵ برس بعد ۵۸۸ ق-م میں پیش آیا، جب اہل فارس کے بادشاہ بخت نصر نے اس پر حملہ کیا اور پورے شہر کو آگ لگادی، جس میں مسجد کی عمارت منہدم ہوگئی، پھر شاہ ایران کے تعاون سے دوبارہ اس کی تعمیر ہوئی۔ دوسرا واقعہ ۶۳ ق-م میں ہوا، جس میں دوبارہ رومی قابض ہوگئے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کے چالیس سال بعد ۷۰ء میں طیطلس نامی بادشاہ نے اس شہر کو بالکل تباہ کردیا، اس میں بھی مسجد کو نقصان پہنچا۔ ۱۳۵ء میں رومی بادشاہ ہیرڈوس نے اس شہر کو دوبارہ بسایا اور اس کا نام ایلیاء رکھا۔ ۶۱۴ء میں دوبارہ اہل فارس نے قبضہ کرلیا، لیکن مسجد اقصیٰ ۷۰ء سے حضرت عمرکے زمانے تک ویران رہی۔ (تفسیر حقانی، ج:۵،ص:۶۴/۷۱، خطط الشام ،ج: ۵،ص:۲۵۲(


مسجد ِاقصیٰ کا اسلامی دور

حضرت عمرکے دور خلافت میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراحنے ۱۶ھ میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور ان کے سامنے اپنا پیغام رکھا، نہ ماننے کی صورت میں قتل اور صلح کی صورت میں جزیہ اور خراج کا حکم سنایا، تو وہ ایک شرط پر صلح کے لئے تیار ہوگئے کہ خلیفہٴ وقت صلح کے لئے خود تشریف لائیں۔ حضرت ابوعبیدہنے حضرت عمرکو خط لکھ کر ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو حضرت عمر، حضرت علیکے مشورہ سے بیت المقدس جانے پر راضی ہوگئے، یوں ۱۷ھ میں حضرت عمرکے دور خلافت میں مسجد اقصیٰ اسلام کے سائے میں آگئی۔ حضرت عمرنے مسجد کو صاف کروایا اور وہاں پر مسجد تعمیر کرالی، جس کو مسجد عمرکہتے ہیں۔ (البدایہ والنہایہ،ج: ۱۲،ص:۳۴۴تا ۳۴۸/الروختین فی اخبار الدولتین،ج: ۳،ص:۲۰۶-۲۶۰(


اسلامی دور میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر وترقی

۱۷ھ میں فتح کے کافی عرصہ بعد اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے ۶۵ھ میں اس کی تعمیر اور مرمت کا آغاز کیا اور ولید بن عبد الملک نے مصر کے سات سال کا خراج اس کی تعمیر کے لئے وقف کردیا تھا۔ ۱۳۰ھ اور ۱۵۸ھ کے زلزلوں میں اس کی عمارت کو نقصان پہنچا تو ۱۶۹ھ میں مہدی کے دور حکومت میں دوبارہ اس کی تعمیر نو کی گئی۔ ۴۰۷ھ کے زلزلے میں قبّہ کی دیوار یں منہدم ہوگئیں تو ۴۱۳ھ میں ظاہر فاطمی نے اس کی دوبارہ تعمیر کی اور افرنگی بادشاہوں نے مسلمان بادشاہوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ۴۹۲ھ میں بیت المقدس پر حملہ کردیا اور حضرت عمرکے برخلاف اس بادشاہ نے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور مسجد کی بے حرمتی کی اور مسجد میں گھوڑوں کے لئے اصطبل بنایا، جس کو ”اصطبل سلیمان“ کہا جاتا تھا اور مال متاع لوٹ لیا تھا۔ ۹۱ سال تک مسجد اقصیٰ ان کے قبضہ میں رہی۔ پھر سلطان نور الدین زنگی کے فتوحات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کے جانشین سلطان الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب نے ۵۵۳ھ میں دوبارہ قبضہ کرلیا اور مسجد کی صفائی کروا کر اس کی مرمت کی۔ (معجم البلدان،ج: ۵،ص:۱۶۸،خطط الشام، ج:۵،ص:۲۵۳،۲۵۲(
اس کے بعد مسلمان بادشاہ اس کی مرمت اور تزیین میں حصہ لیتے رہے: ۶۵۵ھ میں ملک معظم نے، ۶۶۸ھ میں ظاہر بیبرس نے، ۷۸۶ھ میں منصور قلادوں نے، ۷۶۹ھ میں ملک اشرق نے، ۷۸۹ھ میں ظاہر برثوق اور ظاہرجقمق العلانی نے، ۸۷۷ھ میں الاشرف ابو النصر نے تجدید کی۔
خلافت عثمانیہ کے خلفاء بھی حصہ لیتے رہے، خاص طور پر سلیمان القانونی نے ۹۴۹ھ میں تجدید کی۔ اس کے بعد عثمانی خلفاء نے اس کی طرف خاص توجہ نہ دی، بہرحال پھر بھی ۱۲۳۲ھ، ۱۲۵۶ھ، ۱۲۹۱ھ اور اس کے بعد بھی تزیین وآرائش کا کام جاری رہا اور موجودہ تعمیر ترک سلاطین کے دور میں سلطان عبد الحمید( ۱۸۵۳ء) اور سلطان عبد العزیز (۱۸۷۴ء) کے دور حکومت کی تعمیر کردہ ہے۔ (خطط الشام،ج: ۵،ص:۲۵۲،۲۵۱- القدس دراسةً تاریخیةً(


مسجد ِاقصیٰ کی مساحت

مسجد اقصیٰ کا اطلاق اس پورے احاطے پر ہوتا ہے، جس کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا ہے اور اس پر مسجداقصیٰ کا اطلاق کیا ہے۔ اس اعتبار سے اور ہردورمیں گز اور میٹر کے اختلاف کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کے طول وعرض میں مؤرخین کے مختلف اقوال ہیں۔ ”احسن التقاسیم“ اور ”مختصر کتاب البلدان“ میں ہے کہ مسجد کی لمبائی ایک ہزار گز اور چوڑائی ۷۰۰ گز ہے۔ (احسن التقاسیم، ۱۴۷(
معجم البلدان“ میں ہے کہ اس کی لمبائی اس کی چوڑائی سے زیادہ ہے۔ ناصر خسرو نے اپنے سفرنامے میں جو ۴۳۸ھ میں ہوا، اس میں لکھا ہے کہ مسجد بیت المقدس کی لمبائی ۷۵۴ گز اور چوڑائی ۴۵۵ گز ہے، یہ خراسان وغیرہ کے گز کے حساب سے ہے۔ابن جبیر نے اپنے سفرنامہ میں جو ۵۷۸ھ- ۵۸۱ھ میں ہوا، اس میں لکھا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی ۷۸۰ گز لمبائی اور ۴۵۰ گز چوڑائی ہے اور حدود حرم کے اندرونی ہال کا طول ۶۰۰ گز اور عرض ۷۰۰ گز ہے، نہایت عمدہ اور خوبصورت نقش ونگار کیا ہوا ہے۔ تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسجد اقصیٰ روز اول سے جن حدود پر قائم ہوئی، آج بھی انہیں حدود پر قائم ہے۔ کبھی چار دیواری کے اندر پورے احاطے کو مسجد اقصیٰ کہا جاتا ہے اور کبھی صرف اس خاص حصہ کو مسجد اقصیٰ کہا جاتا ہے۔ (القدس دراسةً تاریخیةً(

مسجد اقصیٰ کے متعلق فضائل
مسجد اقصیٰ کے فضائل احادیث میں آئے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ:
رسول اللہﷺ  نے فرمایا کہ تین مسجدوں کے علاوہ (کسی دوسری جگہ کے لئے) تم اپنے کجاووں کو نہ باندھو (یعنی سفر نہ کرو): مسجد حرام، مسجد رسول (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد اقصیٰ “۔ (بخاری ج:اص:۱۰۸)
اور ایک روایت میں ہے کہ:
مسجد اقصیٰ میں ایک نماز بیس ہزار نمازوں کے برابر (اجر وثواب رکھتی) ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ:
جو شخص بیت المقدس میں نماز پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرمائیں گے“۔ (فضائل بیت المقدس، ص:۱۰۷)
مسجد اقصیٰ کی حدود میں دیگر بھی ایسی چیزیں موجود ہیں، جو مسلمانوں کے لئے باعث فخر ہیں، جن میں سے حدود حرم میں واقع قبے، مینارے اور مدرسے ہیں، جن کو مسلمان بادشاہ مختلف ادوار میں تعمیر کرواتے رہے، ان میں سے چندمشہور قبّوں کے نام یہ ہیں: قبة المعراج، قبة السلسلة، قبة النحویة، قبة الصخرة۔(خطط الشام، ۵/۲۵۷) ان سب میں سے زیادہ مقدس قبة الصخرة ہے، جس کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا جاتا ہے۔

قبة الصخرة
قبہ گنبد کو اور الصخرة چٹان کو کہتے ہیں، یہ قبہ ایک چٹان پر واقع ہے۔ ناصر خسرونے اپنے سفرنامہ میں اس کے اوصاف بیان کئے ہیں کہ یہ قبة الصخرة ایک چبوترہ میں واقع ہے اور صخرہ قبہ کے وسط میں ہے اور قبة الصخرة مثمّن الاضلاع (آٹھ پہلوؤں والا) ہے، آٹھ پہلوؤں میں سے ہر پہلو ۳۳ گز کا ہے اور چاروں طرف دروازے ہیں اور قبہ کا اندرونی احاطہ ۵۳ میٹر ہے، سیڑھیوں سے چڑھ کر اوپر کی طرف پہنچتے ہیں، سیڑھیوں کے اختتام پر دروازے ہیں اور قبہ کا اندرونی حصہ تین حصوں پر مشتمل ہے: پہلے میں چٹان، دوسرے میں ستون اور تیسرا حصہ دروازے کے ساتھ متصل ہے۔
قبہ میں اندر کی طرف ستون کی دوقطاریں ہیں۔ پہلی قطار چٹان کے اردگرد ہے، اس میں چار بڑے مربّعة الاضلاع (چار پہلووٴں والے) اور دو گول چھوٹے ستون ہیں۔ دوسری قطار ذرا فاصلہ پر ہے، اس میں آٹھ بڑے مسدّسة الاضلاع (چھ پہلووٴں والے) اور(۱۶) سولہ چھوٹے ستون ہیں اور ان ستونوں پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے۔
سب سے پہلے اس کی تعمیر خلیفہ عبد الملک بن مروان نے کی ہے یا تاریخ یعقوبی کے مصنف نے یہ ایک بات نقل کی ہے کہ جب خلیفہ عبد الملک بن مروان کا حضرت عبد اللہ بن زبیرسے اختلاف ہوا تو حجاز پر حضرت عبد اللہ بن زبیرکا کنٹرول تھا ، خلیفہ نے لوگوں کی توجہ حرمین شریفین سے ہٹانے کے لئے مسجد اقصیٰ میں قبة الصخرة تعمیر کروایا، لیکن یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ تاریخ یعقوبی کا مصنف شیعہ ہے اور وہ اموی خلفاء کو پسند نہیں کرتا، دوسری وجہ یہ ہے کہ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اسی دور میں جامع مسجد دمشق اور دیگر مقدس مقامات پر شاندار، خوبصورت عمارتیں تعمیر کروائیں، یہ بھی ان میں سے ہے۔ (خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۳، تاریخ یعقوبی،ج: ۲ص:۱۸۲ ،القدس(
بہرحال قبة الصخرة اموی دور کا ایک اہم شاہکار تصور کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کی رونق میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ قبة الصخرة کی تعمیر مشہور تابعی ”رجاء بن حیوہ“ اور ”یزید بن سلام“ کی نگرانی میں مکمل ہوئی، جب تعمیر مکمل ہوئی تو ان حضرات نے خلیفہٴ وقت کو لکھا کہ ایک لاکھ دینار بچ گئے ہیں، تو خلیفہ نے ان کو ان کی ایمان داری اور دیانت کا انعام دینا چاہا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس اعزاز میں اور نعمت کے شکرانے کے طور پر اپنی بیویوں کے زیور اس پر لگادیں، چہ جائیکہ اس کے بدلے انعام لیں، تو خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کے سونے کو پگھلا کر طلا کاری کردی جائے۔ یہ ان کے اخلاص کا نتیجہ تھا۔ (فضائل بیت المقدس،ص:۷۳(
الصخرة
یہ قبہ جس چٹان پر واقع ہے، وہ چٹان ایک قدرتی پتھر ہے، جس کی لمبائی ۵۶ فٹ اور چوڑائی ۴۲ فٹ ہے اور نیم دائرے کی غیر منظم شکل ہے۔ ناصر خسرو اپنے سفرنامہ میں لکھتے ہیں کہ اس کا کل احاطہ ۱۰۰ گز ہے اور یہ غیر منظم شکل ہے اور نہ ہی مدوّرة اور نہ ہی مربّعة، یہ عام پہاڑوں کی طرح ہے۔ (القدس دراسةً تاریخیةً(
اس چٹان کے کئی فضائل ہیں ۔ حضرت ابن عباسسے روایت ہے کہ یہ چٹان جنت کی چٹانوں میں سے ہے۔ اکثر مؤرخین کے نزدیک یہ وہی جگہ ہے، جہاں پر اسرافیل علیہ السلام کھڑے ہوکر نفخہٴ اخیرہ پھونکیں گے۔ یہی انبیاء سابقینکا قبلہ رہا ہے اور ۱۶،۱۷ ماہ تک نبی کریم ا بھی اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ یہودیوں کا قبلہ اول ہونے کی وجہ سے عیسائی وہاں پر کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے، جب حضرت عمرنے فتح کیا تو اس کو صاف کروایا۔ (فضائل بیت المقدس،ص:۱۲۳(
غار
اسی چٹان کے نیچے ایک غار ہے، جو مربعہ شکل میں ہے ۔اس غار کی لمبائی ۱۱ فٹ اور زمین سے اونچائی ۳۰ فٹ ہے۔ غار تک پہنچنے کے لئے قبلہ کی طرف گیارہ سیڑھیاں ہیں اور غار کے دروازے کے پاس ایک عمارت ہے جو دوستونوں پر مشتمل ہے اور سنگ مرمر سے اس کی تزیین کی گئی ہے ۔ عمارت کے اندر دو محراب ہیں۔ محراب کے نیچے دوستون انتہائی خوبصورت اور سنگ مرمر سے بنے ہوئے ہیں۔ دائیں طرف والے محراب کے سامنے ایک چبوترہ ہے، جس کو مقامِ خضر کہا جاتا ہے۔ شمال میں واقع چبوترہ کو ”باب الخلیل“ کہا جاتا ہے۔ قبّہ اور غار کا فرش خوبصورت سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے،جس سے اس کی چمک اور خوبصورتی میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ (خطط الشام،ج:۵ص:۲۵۴(

مسجد کا اندرونی حصہ
مسجد کے اندرونی حصے کے مغربی جانب جامع النساء ہے، جس کو فاطمیین نے تعمیر کروایا اور مغربی جانب جامع عمرہے، جس کو حضرت عمرنے فتح کے بعدتعمیر کرایا تھا اور اسی عمارت کی طرف ایک بڑا خوبصورت ایوان ہے، جس کو” مقامِ عزیر“ کہا جاتا ہے، اسی ایوان کے شمال کی جانب ایک خوبصورت محراب ہے، جس کو” محرابِ زکریا“ کہا جاتا ہے اور اس کی لمبائی اور چوڑائی ۶۰۶ میٹر ہے۔ مغربی جانب ایک لوھے کا جنگلہ ہے، جس میں ایک محراب” محرابِ معاویہ “کے نام سے ہے۔ قبلہ کی جانب ایک بڑا محراب ہے، جس کو محرابِ داؤدکہتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک منبر ہے، یہ منبر سلطان نور الدین زنگی نے مسجد اقصیٰ کے لئے بنوایا تھا، خود انتقال کرگئے ، لیکن ان کے جانشین سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس کو فتح کے بعد حلب سے منگوا کر نصب کیا۔ (خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۵(

دیوارِ براق
یہ دیوار دم کے جنوب مغرب میں ہے، اس کی لمبائی ۴۷ میٹر اور بلندی ۱۷ میٹر ہے۔ روایات میں ہے کہ حضور ﷺ نے معراج والی رات یہاں اپنی سواری باندھی تھی، اسی مناسبت سے اس کو دیوار براق کہتے ہیں۔
مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حضرت عمرنے فتح کے بعد حضرت کعب احبارسے پوچھا کہ کہاں نماز پڑھوں؟ انہوں نے فرمایا کہ چٹان کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھیں، تاکہ سارا قدس آپ کے سامنے ہو۔ حضرت عمرنے فرمایا کہ آپ نے تو یہودیوں سے ملی جلی بات کہی، میں تو وہاں پر نماز پڑھوں گا، جہاں پر رسول اللہ ا نے نماز پڑھی تھی، چنانچہ آپقبلہ کی جانب گئے اورفاتحین صحابہکے ساتھ براق باندھنے کی جگہ کے قریب نماز پڑھی، آپنے وہاں پر مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ (البدایہ والنہایہ ج:۱۲ص:۳۴۷۔خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۵/ القدس دراسةً تاریخیةً(

مینارے
مسجد اقصیٰ کے شمال اور مغرب کی جانب چار مینارے تھے، یہ چاروں مینارے چاروں دروازوں کے ساتھ تعمیر کئے گئے تھے، ان کو باب المغاربة کا مینارہ، باب السلسلہ کا مینارہ، باب؟ کا مینارہ اور باب الاسباط کا مینارہ کہا جاتا ہے۔ یہ مینارے ممالیک کے دور حکومت ( ۷۶۹ھ تا ۱۳۶۷ھ) میں تعمیر ہوئے۔ (خطط الشام،ج: ۵ص:۲۵۴(

مسجد اقصیٰ میں تعلیم وتعلّم اور علمی شخصیات
مسلمان بادشاہوں نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس میں تعلیم و تعلّم کے لئے بھی سہولتیں فراہم کیں: طلباء کے لئے کمرے اور درسگاہیں تعمیر کیں، ان میں سے جامعة المغاربہ، مدرسہ عثمانیہ، مدرسہ کریمیہ، مدرسہ باسطیہ اور مدرسہ طولونیہ وغیرہ تعمیر کرائے۔ مسجد اقصیٰ کی طرف بہت سی علمی اور مذہبی شخصیات نے سفر کئے، جن میں مشہور نام یہ ہیں: حضرت عمرکے دور خلافت میں عبادة بن صامتمتوفی۳۴ھ اور شداد بن اوسمتوفی۵۸ھ وہیں رہے۔ مشہور مفسر مقاتل بن سلیمانالمتوفی سنة ۱۵۰ھ اور فقیہ امام عبد الرحمن بن عمرو اوزاعیمتوفی ۱۵۷ھ اور عراق کے مشہور عالم امام سفیان ثوریمتوفی ۱۶۱ھ اور مصر کے امام لیث بن سعد متوفی ۱۷۵ھ اور فقہ شافعی کے بانی امام محمد بن ادریس شافعیمتوفی ۲۰۳ھ اور حجة الاسلاممتوفی ۴۸۸ھ ہیں۔
اس کے بعد عیسائیوں کے قبضہ میں جانے کے بعد یہ سلسلہ موقوف ہوگیا تھا ، لیکن سلطان صلاح الدین ایوبیکی فتح کے بعد دوبارہ اس میں تعلیم اور تعلّم کا سلسلہ جاری ہوگیا اور ہندوستان کے مشہور خطیب مولانا محمد علی جوہرکا مزار مدرسہ خاتونیہ کے باہر واقع ہے۔
(معجم البلدان،ج: ۵ص:۱۷۲ باعث النفوس الی زیارة القدس والخلیل)

بیت المقدس پر لکھی جانے والی چند کتابیں :
۱-مشیر الغرام الی زیارة القدس والشام: للامام شہاب الدین ابی محمود بن تمیم المقدسی متوفی ۷۶۵ھ
۲-الجامع المستقصیٰ فی فضائل المسجد الاقصیٰ۔ للامام بہاء الدین ابی محمد القاسم ابن ہبة بن عساکر۔
۳-الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل۔ للامام الدین الحنبلی العلیمی المتوفی ۹۲۷ھ
۴-فضائل بیت المقدس، للامام ابی المعالی المشرف بن المرجی بن ابراہیم المقدسی المتوفی ۴۹۲ھ
۵-باعث النفوس الی زیارة القدس المجروس، للشیخ برہان الدین الفراری المعروف بابن القرقاح۔
۶-فضائل بیت المقدس لابن الجوزی۔
۷-بیت المقدس والمسجد الاقصیٰ، دراسةً تاریخیةً، مولفة محمد حسن التراب۔
۸-المسجد الاقصیٰ والصخرة المشرفة، ابراہیم الغنی۔
۹-القدس، جراسة تاریخیة حول المسجد الاقصیٰ والقدس الشریف للدکتور عبد الفتاح حسن ابوعلیہ۔
۱۰- فضائل بیت المقدس، للامام الحافظ ضیاء الدین محمد بن عبد الواحد بن احمد المقدسی الحنبلی المتوفی ۶۴۳ھ۔
مراجع
۱-بخاری۔
۲-سنن ابن ماجة۔
۳-تفسیر حقانی۔
۴-البدایة والنہایة۔
۵- کتاب الروضتین فی اخبار الدولتین لابی شامة۔
۶-فضائل بیت المقدس للامام ابی المعالی المشرف المرجی المقدس ۴۹۲ھ
۷-فضائل بیت المقدس للامام الحافظ ضیاء الدین محمد بن عبد الواحد بن احمد المقدسی الحنبلی ۶۴۳ھ
۸-القدس:تاریخیة دراسة للدکتور عبد الفتاح حسن ابوعلیہ۔
۹-الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل للامام مجیر الدین الحنبلی ۹۲۷ھ
۱۰-معجم البلدان، یاقوت حموی۔
۱۱- خطط الشام، محمد کر دعلی۔
۱۲-احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم لمحمد الیشاری۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , رمضان،شوال:۱۴۳۲ھ -ستمبر: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 9
بشکریہ: مکتبہ جبریل

اوسلو -نفرت كے پرچارَكو، ہوش میں آؤ!

اوسلو -نفرت كے پرچارَكو، ہوش  میں آؤ! از: ڈاكٹر ایم اجمل فاروقی ۱۵ گاندھی روڈ، دہرہ دون اوسلو میں عیسائی دہشت گردانہ حملہ ایك با...